انڈونیشیا میں
عالمی اتحاد برائے مسلم اسکالرز کی شاخ نے فلسطین کی حمایت میں ممتاز علما کو جمع
کیا
جکارتہ – ہفتہ
17 مئی 2025
عالمی اتحاد
برائے مسلم اسکالرز کی انڈونیشیا شاخ نے ایک بڑے قومی اجتماع کا انعقاد کیا، جس میں
ملک کی مختلف اسلامی تنظیموں اور اداروں سے تعلق رکھنے والے ممتاز علما اور علمی
شخصیات نے شرکت کی۔ یہ اجتماع ذیل کے عنوان کے تحت منعقد ہوا: "فلسطین اور بیت
المقدس کی حمایت میں انڈونیشیا کے علما کے کردار کو مضبوط بنانا"۔
اس اجلاس میں
علما، مبلغین اور فلسطین سے دلچسپی رکھنے والے افراد کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ اس
کا مقصد یہ تھا کہ فلسطینی کاز کے لیے کوششوں کو مربوط بنایا جائے اور عوامی و علمی
سطح پر حمایت کو مزید مؤثر بنایا جائے۔
اجلاس سے خطاب
کرتے ہوئے عالمی اتحاد کے نائب صدر الحبیب ڈاکٹر سلیم سقاف الجفری نے کہا کہ اسرائیلی
قبضہ فلسطینی بچوں کے قتل جیسے جرائم ایسے مذہبی عقائد سے متاثر ہیں جو شدت پسندی
پر مبنی ہیں۔
انہوں نے کہا:
"اسرائیلی
قبضہ کار فلسطینی بچوں کو اس لیے قتل کرتا ہے کیونکہ ان کا ماننا ہے کہ یہ بچے
مستقبل کے مزاحمت کار ہو سکتے ہیں، اس لیے انہیں بچپن ہی میں ختم کر دینا چاہیے۔"
انہوں نے مزید
کہا:
"ہم ایک
ایسی جنگ کا سامنا کر رہے ہیں جو عقیدے اور شناخت کی جنگ ہے، یہ محض سیاسی اختلاف
نہیں۔ اور امتِ مسلمہ کو اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھنا چاہیے۔"
ڈاکٹر الجفری
نے موجودہ اسرائیلی حکومت کو اب تک کی سب سے انتہا پسند حکومت قرار دیا، اور اس کی
مثال دیتے ہوئے کہا کہ اس کے بعض وزرا نے غزہ پر ایٹمی بم گرانے کی باتیں کی ہیں۔
انہوں نے مزید
کہا:
"صہیونی
ریاست فلسطینیوں کو جانوروں سے بھی کمتر سمجھتی ہے، اور یہ بات وہ بغیر کسی شرم
کے۔کھلے عام کہتے ہیں،
انہوں نے فلسطینی
مزاحمت کی بہادری کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ مقامی طور پر تیار کردہ RPG Al Yasin
105 ہتھیار نے اسرائیلی ٹینکوں کو نشانہ بنایا
اور ان کے فوجیوں کو بھاری نقصان پہنچایا۔
انہوں نے مثال
دی:
"جیسے
کوئی ماہر جنگجو اپنے مخالف کو اس کی کمزور جگہ پر ضرب لگا کر گراتا ہے، ویسے ہی
فلسطینی مجاہدین صہیونی فوجی طاقت سے لڑ رہے ہیں۔"
ڈاکٹر الجفری
نے یہ بھی کہا کہ اسرائیلی فوجی غزہ میں داخل ہونے سے خوف زدہ ہیں، وہ شہادت کے
جذبے سے نہیں لڑتے بلکہ صرف اپنی جان بچانے کے لیے لڑتے ہیں۔ یہاں تک کہ بہت سے
فوجی آپریشنز کے دوران ڈائپر (پیشاب روکنے والے حفاظتی کپڑے) استعمال کرتے ہیں، جو
ان کے خوف اور نفسیاتی شکست کی علامت ہے۔
اجلاس کے
اختتام پر متعدد تجاویز پیش کی گئیں، جن میں یہ شامل تھا کہ:
فلسطین کی حمایت
کو ہر سطح پر بڑھایا جائے،
علما عوام میں
شعور و بیداری پیدا کرنے میں مؤثر کردار ادا کریں،
اور امت مسلمہ
فلسطینی عوام اور ان کے مقدسات پر ہونے والے مسلسل مظالم کے خلاف متحدہ موقف اختیار
کرے۔
ماخذ:
رپوبليكا آن لائن
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* للاطلاع على الترجمة الكاملة للخبر
باللغة العربية، اضغط (هنا).