قربانی انسانی اعزاز بھی عجز ونیاز بھی
مولانا مفتی محمد اعظم ندوی
اللہ تعالی نے انسان کو اس کرۂ ارض پر بسایا:
"هُوَ أَنْشَأَكُمْ مِنَ الْأَرْضِ وَاسْتَعْمَرَكُمْ فِيهَا" (ھود:61)
(وہی ہے جس نے تم کو زمین سے پیدا کیا ہے اور یہاں تم کو بسایا ہے) اسکو عزت عطا
فرمائی: "وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ" (بنی اسرائیل:70)(یقینا ہم
نے بنی آدم کو بزرگی دی)، زمین کی ساری چیزوں کو اس کی خدمت پر لگا یا: "هُوَ
الَّذِي خَلَقَ لَكُمْ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا" (بقرہ:29) (وہی توہے جس
نے تمہارے لیے زمین کی ساری چیزیں پیداکیں)، کائنات کو اس کے لیے مسخر فرمادیا:
"أَلَمْ تَرَوْا أَنَّ اللَّهَ سَخَّرَ لَكُمْ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا
فِي الْأَرْضِ" (لقمان:20) (کیا تم لوگ نہیں دیکھتے کہ اللہ نے زمین اور
آسمانوں کی ساری چیزیں تمہارے لیے مسخر کر رکھی ہیں)، یہ سب ہوتا لیکن ان چیزوں سے
استفادہ پر قدرت نہ دی جاتی تو ان کی حیثیت دور کے جلوہ سے زیادہ کی نہ ہوتی لیکن یہ
نعمت بھی اللہ کی طرف سے عطاکی گئی: "وَلَقَدْ مَكَّنَّاكُمْ فِي الْأَرْضِ
وَجَعَلْنَا لَكُمْ فِيهَا مَعَايِشَ"
(اعراف:10) (ہم نے تمہیں زمین میں اختیارات کے ساتھ بسایا،اور تمہارے لیے یہاں
سامان زیست فراہم کیا)، جانوروں سے استفادہ بھی اسی کا ایک حصہ ہے۔
اللہ تعالی کی طرف سے حضرت ابراہیم علیہ السلام
کو حکم ہواکہ اپنے فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کردیں، خالق کی جانب سے
اپنی ایسی محبوب اور منظور نظر مخلوق کو ذبح کرنے کا حکم بجز امتحان کے اور کیا
ہوسکتا تھا! قرآن نے خود کہا: "إِنَّ هَذَا لَهُوَ الْبَلَاءُ
الْمُبِينُ)(صافات:106) (یقینا یہ ایک کھلی آزمائش تھی)، خلیل اللہ نے جناب باری میں
یہ درخواست نہ رکھی کہ ایک ابن آدم اور وہ بھی میرا جگر پارہ میرے ہاتھوں ذبح ہو؛
ایسی بڑی قربانی مجھ سے نہ لیجئے، بلکہ حکم الہی کو بجالانے کے لیے بصد شوق تیار
ہوگئے، اور وارفتگی کا عالم تو دیکھئے کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام خودبھی گویا ہیں:
"يَا أَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ" (صافات:102) (اباجان!جوکچھ آپ کو حکم
دیاجارہا ہے کرڈالئے)، کیا شان ہے بسمل کی، گویا چھری گردن پہ ہے اور اس کی آواز یہ
ہے ؎
کہ
مشق ناز کر! خون دوعالم میری گردن پر
انہوں نے اپنے جذبات محبت کی قربانی دی تو اس کا
صلہ یہ ملا کہ یہ عبادت قیامت تک کے لیے’’یادگار خلیل‘‘ بنادی گئی (وَفَدَيْنَاهُ
بِذِبْحٍ عَظِيمٍ) (صافات:107) ’’اور ہم نے ایک بڑی قربانی فدیہ میں دے کر اس بچہ
کوچھڑالیا‘‘ کی تفسیر میں’’ذِبح‘‘ کو’’ عظیم‘‘کہنے کی ایک وجہ بقول امام عمرو بن
عبید یہ بھی ہے کہ"لأنه جرت السنة به وصار دينا باقيا آخر الدهر"(روح
المعانی:12612) (عظیم اس لیے کہا گیا کہ وہ قربانی قیامت تک کے لیے ایک سنت
اورزندہ جاویدعبادت بن گئی) ،حضور اکرم ﷺنے بھی اس عبادت کو حضرت ابراہیم علیہ السلام سے منسوب کرتے ہوئے فرمایا:"سنة
أبيكم إبراهيم"(سنن ابن ماجه:ابواب الاضاحی،باب ثواب الاضحية،حدیث نمبر:3127)
(یہ تمہارے باپ ابراہیم کا طریقہ ہے)، آپ ﷺ
نے یہ بھی ارشاد فرمایا: "من كان له سعة، ولم يضح، فلا يقربن مصلانا"
(سنن ابن ماجه:ابواب الاضاحی،باب الاضاحی واجبة هي ام لا؟،حدیث نمبر:3123) ( جو
گنجائش رہتے ہوئے قربانی نہ کرے وہ ہماری عیدگاہ کے قریب نہ آئے) ایسے تاکیدی حکم
کی بنیاد پر ہی امام ابوحنیفہ کے علاوہ امام اوزاعی اور لیث بن سعد کا بھی یہی قول
کہ قربانی واجب ہے،امام مالک اور امام احمد کا بھی ایک قول وجوب کاہے، امام ابن تیمیہ
بھی قربانی کو واجب قرار دیتے ہیں، کہتے ہیں:"أما الأضحية فالأظهر وجوبها
أيضا" (دیکھئے: مجموع فتاوی ابن تیمیہ:16223)، امام مالک نے فرمایا:"لا يتركها فإن تركها بئس ما
صنع" (عمدة القاری:242) (قربانی نہ چھوڑے، اگر ایسا کرتا ہے تو کتنا برا ہے یہ
کام جو اس نے کیا)، انہوں نے یہاں تک فرمایا
کہ:"إذا تركها أهل بلد قوتلوا عليهاو لأنها من شعائر الإسلام" (رسائل
فقهية للشیخ ابن عثیمین:4) (اگر کسی شہر کے سارے لوگ اسے چھوڑدیں تو اس پر ان سے
جنگ کی جائیگی،چونکہ یہ شعائر اسلام میں سے ہے) لیکن علامہ ابن حزم ظاہری اپنی
عادت کے مطابق یہاں بھی اسی نتیجہ پر پہونچے کہ"هذا مما خالف فيه الحنفيون
جمهور العلماء"(المحلی:3587) ’’قربانی کو واجب قرار دے کر حنفیوں نے جمہور کی
مخالفت کی ہے‘‘ اور بعض لوگ آج بھی یہ بات بے محابہ کہہ رہے ہیں۔
قربانی کو اللہ تعالی نے صرف مال خرچ کروانے کا
ذریعہ نہیں بنایا ، بلکہ اسے شعار دین بنایا،اب کوئی قربانی کرنے کی بجائے ایام
قربانی میں اس سے ہزار گنا بڑھ کر صدقہ وخیرات کرے توبھی قربانی کی فضیلت حاصل نہیں
کرسکتا،ناطفی نے واقعات میں لکھاہے: " شراء الأضحية بعشرة دراهم خير من
التصدق بألف درهم لأن القربة التي تحصل بإراقة الدم لا تحصل
بالصدقة"(بحوالہ:الجوهرة النیرة،باب حکم الاضحیة:1862) (دس درہم میں قربانی
کا جانور خریدنا ایک ہزاردرہم صدقہ کرنے سے بہتر ہے؛ اس لیے کہ جو ثواب جانور کا
خون بہانے سے حاصل ہوگا وہ صدقہ سے حاصل نہیں ہوسکتا)، افسوس کہ انسان کا خون آج
اتنا ارزاں ہوگیا کہ کسی شخصی یا ملکی مفاد کی خاطر ہزاروں لوگوں کو بے دریغ قتل
کردیا جاتا ہے، اس سے قطع نظر مذہبی اعتقاد کے ساتھ یا مذہبی بالادستی کے لیے صرف
جانوروں کی نہیں بلکہ انسانوں کی قربانی (Human Sacrifice)بڑے پیمانے پر جاری ہے، لیکن مسلمان اپنی ایک عظیم عبادت کو
بجالانے کے لیے قربانی کریں تو بعض’’نام نہاد دور اندیشوں‘‘ کے نزدیک یہ بھی ایک
قسم کی دہشت گردی شمار کی جارہی ہے، یہ محض فریب نظر ہے۔
خود ہمارے برادران وطن اور بعض دیگرغیر مسلم
ممالک کے لوگ جو اسلام کے نہیں کسی اورمذہب کے پیروکار ہیں؛خوب شوق اور عقیدت کے
ساتھ ہزاروں سال سے اس عبادت میں لگے ہوئے ہیں،نیپال میں ہندو مذہب کے آداب قربانی
کی ایک رپورٹ دیکھئے: "Possibly the largest animal sacrifice
in the world occurs during Gadhimai festival in Nepal. In the 3 day long
sacrifice in 2009 it was speculated that more than 250,000 animals were killed
while 5 million devotees attended the festival"(http://edition.cnn.com/2009/WORLD/asiapcf/11/24/nepal.animal.sacrifice/index.html)
(غالبا دنیا میں جانوروں کی سب سے بڑی قربانی ’’گادھی مائی تہوار‘‘
کے دوران نیپال میں ہوتی ہے،ایک اندازہ کے مطابق 2009ء میں صرف تین دنوں میں ڈھائی
لاکھ (ایک تہائی ملین) جانوروں کی بلی دی گئی،جبکہ پانچ ملین(پچاس لاکھ) عقیدت مند
اس میں شریک ہوئے)، نام بلیدان ہویا بھینٹ اس فرق سے یہ حقیقت نہیں بدلتی جانوروں
کی قربانی دینا ایک اہم عبادت ہے، حضرت یعقوب علیہ السلام اور حضرت موسی علیہ
السلام کا قربانی کرنا توریت سے ثابت ہے، قرآن نے حضرت آدم علیہ السلام کے دونوں بیٹوں
کی قربانی کا ذکر کیا ہے۔
اسلام میں یہ عبادت اللہ کے حضور قیام وقعود،
دعاء ومناجات اور رکوع وسجود سے مربوط کردی گئی ہے، اگر کوئی دوگانۂ عید کی ادائیگی
سے پہلے ہی قربانی کرلے تو وہ محض گوشت کھانے کی تیاری ہے، قربانی سے اس کا کوئی
تعلق نہیں، حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:" ومن نحر قبل الصلاة فإنما هو لحم
قدمه لأهله، ليس من النسك في شيء"(بخاری:965) شاہ ولی اللہ نے بجافرمایا
" لأن الذبح لا يكون قربة إلا بتشبه الحاج، وذلك بالاجتماع للصلاة"(حجة
الله البالغة:4811) (چونکہ ذبح حاجیوں کی مشابہت اختیار کرنے سے ہی کارثواب بن
سکتا ہے، اور یہ نماز کے لیے جمع ہوکر ہی حاصل ہوسکتاہے)، احناف صرف ایسے دیہات کے
لوگوں کو اس سے مستثنیٰ قرار دیتے ہیں جن پر عید کی نماز سرے سے واجب ہی نہیں، لیکن
بہتر ان کے لیے بھی قریبی کسی علاقے میں نماز سے فارغ ہونے کا انتظار کر لینا
ہوگا۔
اصل میں قربانی کی حقیقت تو یہ تھی کہ عاشق خود
اپنی جان کو خدا کے حضور پیش کردیتا، مگر رحمت الہی کو یہ گوارا نہ ہوا، اس لیے یہ
حکم دیا کہ تم جانور کو ذبح کرو، ہم یہی سمجھیں گے کہ تم نے خود کو قربان کردیا،
قربانی کا اصل پیغام ہی یہی ہے کہ خالق ومالک کے ہر حکم کو بے چوں چرا تسلیم کرلیا
جائے ؎
اگر
بخشے زہے قسمت، نہ بخشے تو شکایت کیا
سر
تسلیم خم ہے جو مزاج یار میں آئے