بحث وتحقیق

تفصیلات

بھوک سے دم توڑتے بھائیوں کا نوحہ

بھوک سے دم توڑتے بھائیوں کا نوحہ

ڈاکٹر محمد اعظم ندوی

 

غزہ اب ایک شہر نگاراں نہیں، شہر خموشاں بنتا جا رہا ہے، جہاں قبریں کھودنے کے لیے ہاتھ کم پڑ گئے ہیں، گور کن زندہ در گور ہیں، جہاں مائیں اپنے ننھے بچوں کی لاشوں کو آنکھوں سے لگاتی ہیں اور خود بھوک کی تاب نہ لاکر موت کی آغوش میں سو جاتی ہیں، جہاں موت اب محض گولی یا بم سے نہیں، بلکہ گرسنگی اور شدت جوع سے آتی ہے،  یہاں خیموں میں رہنے والے بے بس ہوتے مردان حر صرف دو چیزوں کا سامنا کر رہے ہیں: اوپر سے اترتی آگ، اور اندر سے اٹھتی بھوک کی چیخ، دوائیں ختم ہو چکی ہیں، دواخانوں میں گنجائش باقی نہیں، اوپر کھلے آسمان کا دھواں دھواں سائبان اور نیچے کھلی جیل میں روٹی کی تلاش، انسانی جسم اب صرف شبیہوں میں تبدیل ہوچکے ہیں، جھلسی ہوئی کھال، ابھری ہوئی ہڈیاں، اور کراہتی ہوئی پکاریں، مگر دنیا نے ان پکاروں پر بھاری قسم کے noise-cancelling ہیڈفون پہن رکھے ہیں۔

یونیسف (UNICEF) کے مطابق اس وقت غزہ کے کم از کم 470,000 افراد Integrated Food Security Phase Classification کے تحت مرحلہ پنجم (IPC Phase 5) یعنی تباہ کن سطح (Catastrophic Level) کے قحط کا سامنا کر رہے ہیں، جو قحط کی آخری اور سب سے ہلاکت خیز حالت ہے، اس درجہ میں انسان خوراک تک رسائی سے مکمل محروم ہوتا ہے، اور موت کی دہلیز پر کھڑا ہوتا ہے، مزید یہ کہ 71,000 سے زیادہ بچے شدید نوعیت کی غذائی قلت یا سوء تغذیہ (Severe Acute Malnutrition) کے شکار ہو چکے ہیں، جنہیں فوری اور ایمرجنسی سطح کے علاج کی ضرورت ہے، ان کے ساتھ تقریباً 17,000 مائیں بھی ایسی ہی حالت سے دوچار ہیں، جو سخت بھوک سے موت وحیات کی کشمکش میں ہیں،  یہ صرف اعداد وشمار نہیں، بلکہ ہر ہندسہ کے پیچھے ایک ہڈیوں کا ڈھانچہ، ایک ماں کی کراہ، ایک باپ کی حسرت، ایک بچہ کی بد دعا اور انسانیت کے اجتماعی ضمیر کی بے غیرتی ہے۔

الجزیرہ کے سینئر صحافی انس الشریف، جنہوں نے گزشتہ 21 مہینوں سے غزہ کے میدان میں مستقل رپورٹنگ کی، آج خود کیمرہ کے سامنے لڑکھڑاتے ہوئے کہنے پر مجبور ہوتے ہیں: "میں بھوک سے کانپ رہا ہوں، نقاہت سے گرا جارہا ہوں، اور ہر لمحہ اپنے اوپر چھا جانے والی نیم بے ہوشی سے لڑ رہا ہوں، ہم کیمرے کے سامنے جتنے بھی مضبوط نظر آئیں، اندر سے ہم بکھر چکے ہیں، غزہ مر رہا ہے، اور ہم اس کے ساتھ مر رہے ہیں، اگر دنیا نے آج حرکت نہ کی تو کل شاید کوئی باقی نہ بچے جو نجات کی امید رکھے، یہ موت رکنی چاہیے، یہ محاصرہ ٹوٹنا چاہیے، یہ جنگ ختم ہونی چاہیے۔"

غزہ میں قحط کی نوعیت نہ صرف عمومی قلتِ خوراک کی ہے، بلکہ یہ بھوک بطور ہتھیار starvation as a weapon کا زندہ مظہر ہے، اسرائیلی افواج امدادی مراکز، بڑے باورچی خانوں، راشن کی تقسیم کے مقامات اور یکجا افراد کے مجمع کو نشانہ بناتی ہیں، ایک راشن کٹ تک پہنچنے کی کوشش میں کوئی بچہ شہید ہو جاتا ہے، یا کسی ماں کے ہاتھ میں روٹی آنے سے پہلے ہی اس پر آگ برسائی جاتی ہے،  Relief centers اب "مصائد الموت" یعنی موت کے پھندے کہلاتے ہیں، یہاں خوراک لینے والے کھانوں کے بجائے لاشیں اٹھائی جاتی ہیں۔

غزہ کی گلیوں میں اب ہر لب پر ایک سوال ہے: "هل إلى لقمةٍ من سبيل؟" — کیا ایک نوالہ مل پائے گا؟ یہ سوال صرف ایک بچہ، ایک ماں، یا ایک بوڑھے انسان کی آہ نہیں، بلکہ پوری امتِ مسلمہ کے تقریباً 2 ارب افراد کے اجتماعی ضمیر کو جھنجھوڑنے والی سرگوشی ہے، امت جو اپنے اسراف، عیاشی اور مجازی سرگرمیوں virtual activism کے خمار میں مبتلا ہے، جس کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس تو آن ہیں، مگر ان کے دل کے دروازے بند ہو ہیں، 71 ہزار بچوں کی خالی آنتیں امت کی فکری بانجھ پن پر سب سے بڑی گواہی ہیں۔

ابو عبیدہ، قسام بریگیڈ کے ترجمان، جب عرب دنیا کو آواز دیتے ہیں تو کچھ لمحے کے لیے سوشل میڈیا پر احتجاج، ہیش ٹیگ، اور وقتی مہمات کی لہر اٹھتی ہے، مگر پھر وہی معمول، وہی خواب غفلت، اور وہی "ڈیجیٹل ماتم" جس میں عملی قدم کا کوئی تصور نہیں ہوتا، حالانکہ ابو عبیدہ کی ہر پکار اس جذبہ کو جگانے کے لیے کافی ہے جس نے صدیوں تک اقوام کو زندہ رکھا تھا۔

اس منظرنامہ میں ایک سوال تمام انسانیت سے ہے: کیا تاریخ ہمیں معاف کرے گی؟ غزہ اب صرف فلسطین کا خطہ نہیں، بلکہ انسانیت کے وجود کا ٹیسٹ کیس ہے، یہ ہماری تہذیب، ہماری روح، نبی سے ہماری نسبت، اور ہماری اجتماعی اخلاقیات کا امتحان ہے، اگر ہم خاموش رہے، اگر ہم نے محض رپورٹس پڑھی، آنکھ نم کی، اور آگے بڑھ گئے، تو کل جب تاریخ لکھی جائے گی تو شاید یہ سطریں بھی اس میں ہوں گی:

"جب بچے بھوک سے مر رہے تھے، تب انسانیت نیٹ فلکس دیکھ رہی تھی… اور مسلمان خاموش تھے۔"

 

اور جب قبریں بھر جائیں گی، آنکھیں خشک ہو جائیں گی، اور اذانیں بند ہو جائیں گی، تب غزہ کی ایک ماں ہماری روح کو جھنجھوڑ کر کہے گی:

"اے زندہ کہلانے والے محروم ومرحوم انسان! میں نے اپنا بچہ بھوکا دفنایا، اور تم خاموش تھے!"

عبد العزیز فضلی نے لکھا ہے:

ہم نے بوسنیا کی جنگ (1992–1995) کے ایام میں بہت دُکھ سہے، جب ہم نے دیکھا کہ کس طرح سرب فوج نے بوسنیائی مسلمانوں پر ہولناک مظالم کیے، ان کی عزتوں کو پامال کیا، ان کے شہروں کو راکھ کا ڈھیر بنادیا، اس جنگ میں ایک لاکھ سے زائد مسلمان شہید ہوئے، لاکھوں زخمی و معذور ہوئے، اور 20 ہزار سے زائد لڑکیاں اور عورتیں درندگی کا نشانہ بنیں، جب کہ 40 ہزار سے زیادہ افراد ہمیشہ کے لیے لاپتہ ہو گئے، سراييو (Sarajevo) کا محاصرہ ہوا، شدید بمباری ہوئی، جس کے نتیجہ میں 11 ہزار انسان شہید ہوئے، جن میں 1600 بچے بھی شامل تھے۔

یہ جنگ دسمبر 1995 میں ختم ہوئی…

اور ہم نے گمان کیا کہ شاید یہ مسلمانوں کی آخری بڑی مصیبت ہو گی، ہم نے اس وقت کہا تھا: اگر بوسنیا کے گرد اسلامی ممالک کی سرحدیں ہوتیں،

تو شاید وہاں کے مسلمانوں کو یہ مظالم نہ سہنے پڑتے، لیکن یہ گمان (اور گمان کا بعض حصہ گناہ ہے) آج جھوٹا ثابت ہوا! کیوں کہ آج غزہ کے ہمارے اہلِ وطن

جس وحشیانہ قتلِ عام، جس اجتماعی نسل کشی، جس خونی محاصرہ اور جس قحط وفاقہ کا سامنا کر رہے ہیں

وہ بوسنیا کی ہولناکیوں سے بھی بڑھ چکا ہے، غزہ میں اب تک دو لاکھ سے زائد افراد یا تو شہید ہو چکے ہیں یا زخمی، جن میں ایک تہائی خواتین اور بچے ہیں، محاصرہ اتنا سخت ہو چکا ہے کہ لوگ بھوک اور نقاہت سے سڑکوں پر گرنے لگے ہیں، بچوں کی لاشیں ہڈیوں کے ڈھانچے بن چکی ہیں۔

ہم نے اپنی آنکھوں سے خون میں بھیگے ہوئے روٹی کے ٹکڑے دیکھے،ایسے تھیلے دیکھے جو کھانے کے لیے اٹھائے گئے تھے،

لیکن اُن میں واپس کھانا نہیں بلکہ اُن کے اٹھانے والے شہداء لوٹے! یہ سب کچھ اس وقت ہو رہا ہے جب

غزہ۔کے ارد گرد مصر واردن جیسے مسلم ممالک ہیں، ہم اللہ کے سامنے کیا عذر پیش کریں گے؟! رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "وہ شخص مجھ پر ایمان نہیں لایا، جو خود شکم سیر ہو اور اس کا پڑوسی بھوکا ہو، اور اسے علم بھی ہو!" نبی اکرم ﷺ نے تو یہاں تک فرمایا کہ: "ایک عورت صرف اس لیے جہنم میں داخل ہوئی کہ اس نے ایک بلی کو بند کر کے رکھا یہاں تک کہ وہ بھوک سے مر گئی!"

امام ماوردی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب "الأحکام السلطانیة" میں ذکر کیا ہے کہ

خلیفہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ایسے لوگوں سے ایک پیاسے کی دیت لی تھی جنہوں نے ایک شخص کو پانی نہ دیا، جس کے نتیجہ میں وہ ہلاک ہو گیا، اسی طرح امام الجوینی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب "الغياثي" میں لکھا ہے: "اگر کوئی غریب شخص بھوک سے مر جائے

اور مال دار لوگ اس کے بارے میں جانتے ہوں تو وہ سب گناہگار ہوں گے،

اور اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ان سے بازپرس کرے گا!"

 

#muftimuhammadazam

#muhammadazamnadwi 

#Gaza




منسلکات

التالي
فرانس نے فلسطین کو ریاست کے طور پر تسلیم کرنے کا کیا اعلان.

بحث وتحقیق

تازه ترين ٹویٹس

تازہ ترین پوسٹس

اتحاد کی شاخیں