بحث وتحقیق

تفصیلات

مسجد اقصیٰ پر صیہونیوں کے بدبختانہ حملے کے حوالے سے بیان

مسجد اقصیٰ  پر صیہونیوں کے بدبختانہ حملے کے حوالے سے بیان

 

عالمی اتحاد برائے مسلم علماء کی طرف سے امت مسلمہ کے نام استغاثہ:

وا أقصاه!

امت اسلامیہ کہاں ہے؟ کہاں ہے وہ جو اپنی پہلی قبلہ گاہ اور اپنے رسول ﷺ کے معراج کی سرزمین کی محافظ ہیں ؟!

اگر آپ غزہ کی مدد اس لیے نہیں کرتے کہ وہاں مجاہدین موجود ہیں، تو آپ کے پاس کیا عذر ہے جب آپ کی پہلی قبلہ گاہ اور دیگر مقدسات پر حملہ ہو رہا ہے؟!

عالمی اتحاد برائے مسلم علماء آج بروز 28 ذو القعدہ، مسجد اقصیٰ مبارک میں پیش آنے والے غیر معمولی اور شدید تشویشناک واقعے پر گہرے اضطراب اور غم کے ساتھ نگاہ رکھے ہوئے ہے۔ آج ہزاروں صیہونی آبادکاروں نے اسرائیلی قابض فوج کی سخت نگرانی و سرپرستی میں مسجد اقصیٰ پر ایک بے مثال اجتماعی دھاوا بولا۔ یہ منظر دین، عقیدے اور امت مسلمہ کے خلاف انتہائی درجے کے جارحانہ رویے اور کھلی سیاسی و مذہبی دراندازی کا آئینہ دار ہے۔ صیہونیوں نے انتہائی ڈھٹائی سے اعلان کیا کہ "یروشلم (القدس) ہمارا ہے، اور غزہ بھی ہمارا ہے۔"

آج جو کچھ بیت المقدس میں ہو رہا ہے، وہ کوئی وقتی یا معمولی واقعہ نہیں، بلکہ یہ مسلمانوں کے مقدسات کو منظم انداز میں یہودیت میں ڈھالنے کی ایک نہایت خطرناک کڑی ہے، جو اس وقت غزہ میں جاری نسل کشی کے ساتھ جڑ کر ایک دوہری تباہی کی شکل اختیار کر چکی ہے:

ایک طرف انسانی نسل کشی، اور دوسری طرف عقیدے و شناخت کو مٹانے کی مجرمانہ سازش۔

اتحاد اس جارحیت کی محض مذمت پر اکتفا نہیں کرتا، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ عرب و اسلامی دنیا کے سرکاری و حکومتی حلقوں کی مشتبہ خاموشی پر بھی شدید غصے اور افسوس کا اظہار کرتا ہے، کیونکہ اسلامی دنیا کے 57 میں سے اکثر ممالک کی طرف سے ایسا کوئی ٹھوس موقف سامنے نہیں آیا جو اس سانحے کی شدت اور اس کی دینی و قومی اہمیت کے شایانِ شان ہو۔

یہ خاموشی یا تو ملی ہوئی سازش ہے یا قابلِ شرم بے بسی — اور دونوں ہی تاریخ میں بدنما داغ کی حیثیت رکھتے ہیں جسے وقت کبھی نہیں مٹائے گا۔

قابض قوت نے ایک بار پھر وہی گستاخانہ جملہ دہرایا جو اس نے 1967ء کی شکست سے قبل کہا تھا: "محمد مر چکا ہے!"

اور آج، جب وہ مسجد اقصیٰ پر اپنا سب سے بڑا حملہ کر رہا ہے، وہ یہ گمان کر رہا ہے کہ دو ارب مسلمانوں کی امت ختم ہو چکی ہے — کیونکہ اُسے ان میں سے کوئی رکاوٹ یا مزاحمت نظر نہیں آئی۔

اس سنگین صورت حال کے تناظر میں، عالمی اتحاد برائے مسلم علماء درج ذیل مؤقف کا اعلان کرتا ہے:

1. مسجد اقصیٰ مبارک سرخ لکیر ہے — اس کے خلاف کوئی بھی جارحیت پوری امت مسلمہ پر حملہ تصور کی جائے گی۔

2. آزاد عوام، علما، دانشوروں اور میڈیا سے مطالبہ ہے کہ وہ خاموشی کا طلسم توڑیں اور بیت المقدس پر ہونے والے حملے کو دنیا کے سامنے بے نقاب کریں۔

3. اسلامی حکومتوں کو اللہ اور اپنی عوام کے سامنے تاریخی جواب دہی کا احساس دلایا جاتا ہے — یہ مجرمانہ بے حسی ناقابلِ معافی ہے۔

4. امت کے ہر فرد اور ہر ادارے کو چاہیے کہ وہ عوامی و سرکاری سطح پر بھرپور تحریک چلائے، تاکہ مسجد اقصیٰ کو امت کے شعور، احساس، اور ترجیحات میں پہلی صف میں واپس لایا جا سکے۔

بے شک القدس صرف فلسطینیوں کا مسئلہ نہیں، بلکہ ہر مسلمان، ہر صاحبِ غیرت، اور ہر آزاد انسان کی ذمہ داری ہے۔

اگر آج ہم خاموش رہے تو یہ خاموشی کل ہمارے خلاف لعنت بن جائے گی۔

اور یاد رکھو! تاریخ کسی کو معاف نہیں کرتی۔

اے دو ارب کی امت! اٹھو اپنی عزت و غیرت کے لیے!

مسجد اقصیٰ محض ایک مسجد نہیں —

یہ عزت کا نشان،

وقار کی علامت،

اور مردانگی کا اصل میدان ہے۔

﴿...وَاللَّهُ غَالِبٌ عَلَىٰ أَمْرِهِ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ﴾ (یوسف: 21)

اللہ تعالیٰ اپنے فیصلے پر غالب ہے، لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔

 

دوحہ، 28 ذو القعدہ 1446ھ

مطابق: 26 مئی 2025ء

 

د. علی محمد الصلابی                                                    پروفیسر ڈاکٹر علی محی الدین قرہ داغی

       سیکرٹری جنرل                                                                                  صدر

صدر

 

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* للاطلاع على الترجمة الكاملة للبيان باللغة العربية، اضغط (هنا).




منسلکات

السابق
باکو میں اسلاموفوبیا سے متعلق بین الاقوامی کانفرنس کا آغاز، عالمی اتحاد برائے مسلم علماء کی شرکت

بحث وتحقیق

تازه ترين ٹویٹس

تازہ ترین پوسٹس

اتحاد کی شاخیں